Saturday, April 9, 2016

آف شور کمپنیاں علامت ہیں اصل بیماری نہیں- حصہ اول


موضوع پر جانے سے پہلے تھوڑے سے تاریخی حوالے کہ انکے بغیر اصل کہانی سمجھ نہیں آئے گی
 ملک ہے انگلینڈ ، بادشاہ ہے جیمز دوئم اور سال ہے ١٦٨٨،  جیمز دوئم کے گھر پیدا ہوتا ہے اسکا بیٹا جیمز فرانسس ایڈورڈ المعروف جیمز سوئم . بیٹے کی پیدایش نے پہلے سے الجھے جانشینی  کے معاملات کو مزید الجھا دیا. بیٹے کی پیدایش سے پہلے جیمز دوئم کی بیٹی میری دوئم جس کی شادی ہالینڈ کے ولیم سوئم المعروف ولیم  آف اورنج کے ساتھ ہوچکی تھی ، تاج برطانیہ کی جانشین تھی
مسئلہ یہ آن پڑا تھا کہ جیمز دوئم کیتھولک تھا جبکہ اسکی بیٹی اور داماد پروٹسٹنٹ اور انگلینڈ میں اشرافیہ بھی پروٹسٹنٹ تھی . جیمز سوئم کی پیدایش نے اس بات کی راہ ہموار کردی کہ اب اگلا بادشاہ بھی کیتھولک ہوگا اور یوں انگلینڈ پھر سے کیتھولک بالادستی میں چلا جائے گا  . اس خدشے کے پیش نظر انگلینڈ کی اشرافیہ نے ولیم سوئم اور اسکی بیوی میری دوئم کو دعوت دی کہ وہ جیمز دوئم کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے برطانیہ پر قبضہ کرلیں اور یوں اسی سال جیمز دوئم کو اقتدار سے بیدخل کردیا گیا اور اس انقلاب کو شاندار انقلاب کا نام دیا جاتا ہے
ولیم سوئم اور میری دوئم برطانیہ کے اقتدار پر قابض تو ہو گئے لیکن اگلے کئی سالوں میں خانہ جنگی اور فرانس (جسکا جیمز دوئم کے ساتھ الحاق تھا ) کے ساتھ جنگوں میں الجھ کر برطانیہ کا تقریبا دیوالیہ نکل گیا
سال ١٦٩٤ تک حالت یہ ہو گئی تھی کہ برطانیہ کا بادشاہ ولیم سوئم قرضدار ہوچکا تھا اور انگلینڈ ، سکاٹ لینڈ ، ائیر لینڈ میں جاگیرداروں پر مزید ٹیکس لگانے کی کوئی سبیل نہ تھی کہ سخت بغاوت کا خدشہ تھا
برطانیہ کو معاشی دیوالیہ اور بادشاہ کو اس صورتحال سے بچانے کیلئے کئی تجاویز پر غور شروع ہوا اور اس زمانے میں ایک سکاٹش شخص  ولیم پیٹرسن نے ایک بینک کے قیام کا خاکہ اور تجویز پیش کی. تجویز یہ تھی کہ بادشاہ کو درکار بارہ لاکھ پاونڈ کی رقم فراہم کی جائے گی اور اسکے بدلے میں بادشاہ ایک نجی بینک ، بینک آف انگلینڈ کا چارٹر سرمایہ داروں کے ایک گروہ کو دے گا اور یہ بینک ، نوٹ جاری کرنے اور جتنے مرضی نوٹ جاری کرنے  اور بادشاہ / برطانیہ کو دئیے گئے قرضہ کے عوض ، عام عوام پر ٹیکس لگا کر اپنا قرض وصول کرنے کا حقدار ہوگا، یعنی کہ ریاست اور حکومت کے معاملات پر نجی سرمایہ دار انتہائی اثر و رسوخ والے بن بیٹھے  
چونکہ اس زمانہ میں کرنسی کا معیار سونا ہوا کرتا تھا اور سونے پر اجارہ داری سناروں اور خاص طور پر گولڈ سمتھ خاندان کی تھی تو انہوں نے درکار زیادہ تر سرمایہ فراہم کیا اور بینک میں بڑے حصہ دار بن گئے.
اب حقیقت حال یہ ہو گئی کہ بادشاہ اس غرض سے بے نیاز ہوگیا کہ اپنے اللے تللوں اور جنگوں کے لئے درکار سرمائے کا کہاں سے بندوبست کیا کرے ، اسکو جب بھی پیسہ درکار ہوگا وہ بینک سے لے لے گا اور بینک کے نجی سرمایہ دار اس قرض اور قرض پر چڑھے سود کی وصولی کیلئے مرضی سے نوٹ جاری کرنے اور عوام پر ٹیکس لگانے میں آزاد و خود مختار تھے اور اس بات میں بھی آزاد و خودمختار کہ کس کس شے اور خدمات پر ٹیکس لگا سکتے ہیں  اور بادشاہ کے لئے ہوئے قرض کو عوام پر قرض میں بدل کر اسے قومی قرض کا نام دیدیا گیا اور عوام سے کسی نے پوچھنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی کہ آیا آپ کو یہ قرض قبول بھی ہے کہ نہیں
اور یوں دنیا میں ریاستی بینک کے لبادے میں نجی سرمایہ داروں کے کسی ملک کی اکانومی کو کنٹرول کرنے ، قومی قرضہ نام کے عفریت اور عوام پر مستقل ٹیکس لگانے کی بنیاد رکھ دی گئی، ناصرف یہ بلکہ اس بات کی بنیاد بھی رکھ دی گئی کہ عوام کے اوپر ٹیکس لگانے ، بڑھانے ، کم کرنے یا ختم کرنے میں عوام کی مرضی و منشاء کا کوئی اختیار ، اثر یا رائے نہیں ہوگی  
چلئے تاریخ کے پہئے کو تھوڑا آگے کو گھماتے ہیں، سال ہے ١٨١٥ اور مقام ہے واٹرلو ، نپولین کی فوجوں کو شکست ہو چکی ہے اور ڈیوک آف ویلنگٹن  فتح کے جھنڈے لہرا رہا ہے لیکن ٹھہرئیے ، ڈیوک آف ویلنگٹن کے نیتھن روتھس چائلڈز کے ساتھ قریبی تعلقات کو نظرانداز نہ کیجئے . اصل میں ڈیوک آف ویلنگٹن کو اسکی فوج کے اخراجات کیلئے زیادہ تر سرمایہ نیتھن روتھس چائلڈز نے ہی فراہم کیا تھا، اور یہ نیتھن روتھس چائلڈز کی مالی امداد ہی تھی جس نےفرانس کی شکست کے نتیجہ میں برطانیہ کو دنیا کی سب سے بڑی استعماری سلطنت بننے میں مدد کی تھی.  ویسے تو اس خاندان نے نپولین بونا پارٹ کو بھی جنگ کیلئے سرمایہ فراہم کیا تھا
اب یہ نیتھن روتھس چائلڈز کون ہیں ، یہ صاحب ہیں مشھور عام روتھس چائلڈز خاندان کے چشم و چراغ جنہیں اسکے باپ مائیر روتھس چائلڈز نے برطانیہ میں نام اور پیسہ کمانے کیلئے بھیجا تھا اور موصوف نے دنیا کی سب سے بڑی  بزنس ایمائر کھڑی کی. تو جناب نیتھن روتھس چائلڈز نے ڈیوک آف ویلنگٹن کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میدان جنگ سے لیکر لندن تک تیز رفتار معلومات کی بہم رسانی کا اپنا متوازی نظام قائم کر رکھا تھا . جونہی نیتھن روتھس چائلڈز تک برطانیہ کی فتح کی خبر سب سے پہلے پہنچی ، اس نے اس خبر کو خفیہ رکھتے ہوئے ، لندن کی سٹاک مارکیٹ میں اپنے سٹاک اور خاص طور پر پاونڈ اور بینک آف انگلینڈ کے سٹاک  فروخت کرنا شروع کردئیے. چونکہ نیتھن بہت بڑا سرمایہ دار تھا اور ڈیوک آف ویلنگٹن کے انتہائی قریب  تو باقی سرمایہ دار یہ سمجھے کہ برطانیہ کو جنگ میں شکست ہوگئی ہے تو انہوں نے فوری طور پر اپنے سٹاک اونے پونے بیچنا شروع کردئیے ، اسکی وجہ سے لندن کی سٹاک مارکیٹ بیٹھ گئی اور قیمتیں زمین پر آ گری، نیتھن روتھ چائلڈز نے اگلے تین دن جتنا ہوسکتا تھا لوگوں سے انکے سٹاک اونے پونے خریدنا شروع کردئیے اور جب تک لندن میں نپولین کی شکست اور برطانیہ کی فتح کی باضابطہ اطلاع آئی ، وہ برطانیہ کا سب سے امیر شخص بن چکا تھا. روتھ چائلڈ خاندان ، اتنا امیر ہو گیا تھا کہ ١٨١٥ سے ١٨٢٥ کے درمیان اس نے بینک آف انگلینڈ کو دیوالیہ ہونے سے بچنے کیلئے تمام درکار سرمایہ فراہم کیا اور ایک طرح سے باقی دوسرے سرمایہ داروں کے ساتھ ملکر  بینک آف انگلینڈ کا مالک بن بیٹھا اور انگلینڈ میں کرنسی،  اسکی رسد اور حکومتی بانڈز پر اسکی اجارہ داری قائم ہو گئی ، کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں اس نے یہ مبینه مشھور الفاظ کہے تھے




شائد بہتوں کو یہ حقیقت معلوم نہ ہو کہ ١٩٤٦ تک بینک آف انگلینڈ ایک نجی بینک تھا اور جب اسکو اسی سال قومیایا گیا تو چونکہ حکومت کے پاس اتنا سرمایہ موجود نہیں تھا تو حکومت نے قیمت کے بدلے حکومتی گارنٹی بانڈز یعنی سٹاک جاری کیے اور حکومت برطانیہ آج تک ان سٹاک کے اوپر منافع اور سود دینے کی پابند ہے ، دوسرے الفاظ میں آج بھی نجی سرمایہ دار بینک آف انگلینڈ کے مالک ہیں
یہ کہانی بتانا اس لئے بھی ضروری تھا کہ یہ کام امریکہ میں راک فیلر ، روتھس چائلڈز ، جے پی مورگن وغیرہ نے  پھر ١٩١٣ میں فیڈرل ریزرو کے نام پر کیا اور نجی بینکوں کا ایک کنسورشیم یعنی اکٹھ بنا کر کرنسی کی طلب و رسد اور اسکے اجراء پر قابض ہو گئے.

١٩١٣ میں امریکی سٹاک مارکیٹ کو جان بوجھ کر تباہ کرنے میں یہی نجی بینکر شامل تھے اور بعد میں امریکی کاںگریس سے عوام کو دھوکے میں رکھتے ہوئے فیڈرل ریزرو بنانے کی منظوری لے لی ، شائد آپ کو جان کر حیرانی ہو کہ امریکی فیڈرل ریزرو ، ریاستی یا سرکاری بینک  نہیں ہے بلکہ نجی بینکوں کا کنسورشیم ہے جس کو مرضی سے ڈالر چھاپنے ، جاری کرنے کی پوری اجازت ہے اور یہی ڈالر چھاپ کر امریکی حکومت کو قرضہ دیتا 
ہے جسکو امریکی حکومت عوام پر ٹیکس لگا کر مع سود ان بینکوں کو واپس کرتی ہے 

سرمایہ داروں کے اسی اثر و رسوخ، دھوکہ دہی اور روپے پیسے کے اوپر کنٹرول کی بات تھی کہ امریکی صدور تک یہ بات کہنے پر مجبور ہوگئے تھے 









جن حضرات کو یہ سب سازشی مفروضوں والی کہانی یا  اوریا مقبول جان والی کہانی لگ رہی ہے وہ اپنا وقت مزید ضائع کرنے کی بجائے طاہر شاہ کی فرشتے والی ویڈیو دیکھ لیں 



5 comments:

  1. واہ واہ مُرشد اعلی ای لِخ چھڈیا جے

    ReplyDelete
  2. شاہ جی اک گل دے دسو اک شاہ اتوار براہمن او وی خراسان دے کیا یہ کھلا تضاد نہیں

    ReplyDelete
  3. ایہہ معرفت دیاں گلاں نیں، تواڈی سمجھ اچ نئیں آؤنیاں

    ReplyDelete
  4. انتہائی دلچسپ انداز بیاں
    طبق روشن کرتی تحریر. دوسری قسط پر جانے سے پہلے ایڈوانس میں بہت سی داد اور اتنا اچھا اور بامقصد لکھنے پر مبارکباد.

    ReplyDelete